میں جو ن 1987 ءمیں روس جا نا چا ہتی تھی تاکہ زار الیگزینڈر اول کے عہد کے ایک ناول کا پس منظر حاصل کر سکوں ۔ اس ناول میں نیپولین بونا پارٹ کا ما سکو پر حملہ بھی شامل کر نا تھا ۔ لندن کے روسی سفارت خانے نے میرے لیے یہ سارے انتظامات کر دئیے۔ مجھے روس، خاص طور پر لینن گراڈ بے انتہا وسیع معلوم ہوا۔ یہ بات میرے لیے بڑی حیرت نا ک تھی کہ چا رسو بر س قبل پیٹر اعظم نے ایک ایسے شہر کا منصوبہ تیا ر کر لیا جس کی سٹرکیں اس قدر چوڑی ہیں کہ چھ مو ٹر کا ریں برا بر برابر ان پر چل سکتی ہیں اس نے اس شہر کو اتنا خوبصور ت بنا یا کہ ڈیوک آف ویلنگٹن نے اسے دنیا کا سب سے زیا دہ خوبصورت شہر قرار دیا ۔ ڈیوک کے اس قدر متاثر ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہا ں بیشتر محل طلسمی کہا نیوں کی طر ح دریائے نیوا کے کنا رے بنے ہوئے ہیں اور سب کے رنگ اصلی ہیں ۔ ۱۴۹۱ ءمیں لینن گرا ڈ کی جنگ کے دوران میں جرمنو ں کے ہا تھو ں تباہ ہونے کے بعد ان عما رتو ں کی جو از سر نو تعمیر کی گئی ہے وہ انتہائی حیرت ناک ہے ۔ تما م نقش و نگا ر ، تصاویر ، مجسمے، حتی کہ مر صع فرش تک کواسطر ح درست کیا گیا ہے کہ دیکھنے والے کو ملکہ کیتھرین کے دور کا گمان ہونے لگتا ہے۔
انگلستا ن سے روانہ ہونے سے قبل ہی ہم کو وٹا من بی ۔ ۵۱ کی حیر ت انگیز دریا فت کے بارے میں معلو م ہو گیا تھا اور ہم نے یہ سن رکھا تھا کہ امریکہ اور روس کے سائنس دانوں کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ انہو ں نے دائمی جوانی کا را ز دریا فت کرلیا ہے۔ وٹا من بی ۔۵۱ دراصل خوبا نی کے مغز کا ست ہے۔ وٹامن بی ۔ ۷۱ بھی اسی طریقے سے حاصل کیا جا تا ہے جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا چکا ہے کہ اس سے سرطان کا مرض دور ہو جاتاہے ۔ وٹامن ۔ ۷۱ کی وجہ سے امریکا میں بڑا ہنگامہ مچا تھا اوریہ کہا گیا تھا کہ اس کی زیا دتی خطر نا ک ہو سکتی ہے ۔ لیکن بی ۔۵۱ کے بارے میں ڈاکٹر پال بک جیسے سائنس داں کی رائے ہے کہ یہ بالکل بے ضر ر ہے۔
مجھے بتایا گیا کہ روس میں کھلا ڑیو ں کو بی ۔۵۱ دیا جا رہا ہے تاکہ ان کی قوت برداشت میں اضافہ ہو۔ ایک مشہور روسی پروفیسر صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عنقریب روس میں لوگ وٹامن بی ۔ ۵۱ کو اس طر ح سے استعمال کرنے لگیں گے کہ جیسے نمک کا استعمال کیا جا تاہے ۔ میں نے یہ ارا دہ کر لیا تھا کہ میں اس نئے وٹا من کے بار ے میں بذات ِ خود معلومات حاصل کرو ں گی ، کیو ں کہ میں یہ سن چکی تھی کہ ہنزہ ( پاکستان ) میں سر طان کا مر ض قطعی نہیں ہو تا اور اس کی وجہ یہ بتائی جا تی ہے کہ وہا ں کے با شندے خوبا نی کا مغز کثرت سے استعمال کرتے ہیں ۔ چنا نچہ جب میں لینن گرا ڈ میں تھی تو میں نے ان صف اول کے ماہرین سے ملنے کی کوشش کی جو وٹا من ۔ ۵۱ کے سلسلے میں تحقیقات کر رہے تھے ۔ لو گ مجھے ایک تحقیقاتی مرکز میں لے گئے جہا ں میری ملا قات ڈاکٹر ولا ڈ یلین ۔ بی ۔ بلیحبیف (VLADILEN P. BELJAEF ) اور پروفیسر یو ری گیبا چو ف (YURI GEEBCHAV ) سے ہوئی ۔ یہ دونو ں حضرات وٹامن ۔۵۱ کے سلسلے میں تحقیقات کر رہے تھے ۔ مجھے اس تحقیقاتی مر کز سے خاص طور پر دلچسپی تھی ، کیو ں کہ ان کی تحقیقات کا مو ضوع دما غ تھا اور میں بھی دما غ کو سب سے زیا دہ اہمیت دیتی ہو ں، حالانکہ آج کل بہت سے لو گ بیوقوفی سے خواب آور گولیا ں اور مسکن ادویہ استعمال کر کے اپنے ذہنو ں کو تبا ہ کیے جا رہے ہیں ۔ میں جس زمانے میں روس میں تھی تو میں نے واحد انگریزی اخبار ”دی ما رننگ اسٹار “ میں پڑھا کہ بر طا نیہ میں ۷۷۹۱ءکے دوران میں لو گو ں نے سات ہزار ملین مسکن ادویہ استعمال کر ڈالیں ۔ میں نے اسی اخبا ر میں یہ بھی پڑھا کہ ڈاکٹر صاحبا ن روزانہ ایک ہزار آدمیو ں کو مسکن دوائیں استعمال کرنے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں ۔
ڈاکٹر بلیحبیفنے میرے اس خیال سے اتفا ق کیا کہ یہ تبا ہ کن گو لیا ں دما غ کی کا رکر دگی کو بر با دکر ڈالتی ہیں ۔ ڈاکٹر موصوف نے یہ بھی بتایا کہ تحقیقات کے دوران انہیں یہ پتا چلا ہے کہ جوانی کو برقرار رکھنے کے لیے دما غ کو سر گرم ِ عمل رکھنا چاہیے ۔ میں نے ان سے بی ۔۵۱ کے بارے میں دریا فت کیا توا نہو ں نے بتا یا کہ وہ اسے انجیکشن کے ذریعہ سے دیتے ہیں، کیو ں کہ اس طر ح سے یہ جلد اثر کر تا ہے اور آسانی سے جزوِ بدن بھی ہو جا تا ہے ۔ ڈاکٹر موصو ف نے یہ بھی بتایا کہ جب بی ۔۵۱ کو جن سنگ (GINSENG ) کے ساتھ ملا کر دیا جا تاہے تو نتیجہ نہا یت حیرا ن کن ہو تاہے ۔ انہو ں نے ایک نو ے بر س کی عورت کا تذکرہ کیا جو بغیر کسی تھکن کے دن بھر تمام کا م انجام دیتی رہتی ہے ۔ اس پر میں نے اپنی والدہ کے بارے میں بتایا جو ۵۹بر س کی عمر میں اپنی موٹر کا ر کو خود چلا تی تھیں اور جب ۸۹ بر س کی عمر میں ان کا انتقال ہوا تو ان کی تمام دما غی اور جسمانی صلا حیتیں بر قرار تھیں ، مگر یہ اس وجہ سے تھا کہ وہ ہمیشہ وٹا من بڑی مقدار میں استعمال کر تی رہتی تھیں۔ میں جب اس تحقیقاتی مر کز سے واپس ہوئی تو مجھے جن سنگ کے بارے میں اپنی خوش اعتقادی بالکل حق بہ جانب معلوم ہوئی او ربی ۔ ۵۱ میں مجھے مزید دلچسپی پیدا ہو گئی ۔
امریکا کے ڈاکٹر پا س واٹر (PASSWATER ) کا کہنا ہے کہ انہو ں نے مشہور باکسر محمد علی کو بی ۔۵۱ دیا تھا ۔ ڈاکٹر موصوف نے بتا یا کہ محمد علی کے جسم میں خون کی کمی ہو گئی تھی او ر ۶۷۹۱میں وہ اپنے عالمی اعزاز کے دفا ع کے لیے جمی ینگ سے مقابلہ کر تے ہو ئے ہچکچا رہا تھا ۔ بی ۔ ۵۱ کے استعمال کے بعد محمد علی کے جسم میں خون کی کمی دور ہو گئی ۔ ڈاکٹر موصوف کہتے ہیں کہ اس وٹا من کی بدولت محمد علی کو بعد میں رچرڈ ڈن (RICHARD DUNN ) اور کن نا رٹن (KEN NORTON) کے مقابلے میں کا میا بیا ں حاصل ہوئیں ۔
امریکا میں بی ۔ ۵۱ کو مختلف امراض کے سلسلے میں کا فی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے ۔ مثلا ً شرا ب نو شی سے نجا ت حاصل کر نے کے سلسلے میں اور ذیا بیطس اور یر قان کے علا ج کے سلسلے میں بچوں کے معالجین کا کہنا ہے کہ جو بچے افسر دگی کا شکار ہو جا تے ہیں ان کے لیے بھی بی ۔ ۵۱ مفید ثابت ہو تا ہے ۔ میں خود بھی بی۔ ۵۱ استعمال کر رہی ہو ں تا کہ ذاتی طور پر اس کے اثرا ت کا پتا چلا سکو ں ۔ میں ایک ایسی مقوی گولی کھا رہی ہو ں جس میں بی ۔ ۵۱ کے ساتھ جن سنگ بی ۔ ۶اور جست شامل ہے ۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ روس کے سائنس دانوں کو بھی میری طر ح اس بات کا یقین ہے کہ تجدید شباب اور توانائی کی توسیع کا انحصار بہت کچھ دما غ پر ہے ۔ جو لوگ اپنی جوانی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور چا ق و چو بند رہنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ خوا ب آور گو لیا ں اور مسکن دواﺅ ں سے پرہیز کریں ۔ انہیں اسپرین سے بھی دور رہنا چاہیے۔ یہ تمام چیزیں دماغ کو تبا ہ کر ڈالتی ہیں اور شخصیت کو تبدیل کر ڈالتی ہیں۔ لہذا آدمی قبل از وقت بو ڑھا ہو جا تاہے ۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 378
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں